Wednesday, 29 September 2021

آخر کو وحشتوں کا سلیقہ سا ہو گیا

 آخر کو وحشتوں کا سلیقہ سا ہو گیا

چلتے رہے تو راستا اپنا سا ہو گیا

تھے آئینوں میں ہم تو کوئی دیکھتا نہ تھا

آئینہ کیا ہوئے کہ تماشا سا ہو گیا

گزرا تھا کب ادھر سے امیدوں کا یہ ہجوم

اتنے دِیے جلے کہ اندھیرا سا ہو گیا

یوں دل دہی کو دن بھی ہوا رات بھی ہوئی

گزری کہاں ہے عمر، گزارا سا ہو گیا

اچھا بہت لگا وہ ستاروں کا ٹوٹنا

رات اپنے جی کا بوجھ بھی ہلکا سا ہو گیا

ہر شام اک ملال کی عادت سی ہو گئی

ملنے کا انتظار بھی ملنا سا ہو گیا


نصیر ترابی

No comments:

Post a Comment