آخر کو وحشتوں کا سلیقہ سا ہو گیا
چلتے رہے تو راستا اپنا سا ہو گیا
تھے آئینوں میں ہم تو کوئی دیکھتا نہ تھا
آئینہ کیا ہوئے کہ تماشا سا ہو گیا
گزرا تھا کب ادھر سے امیدوں کا یہ ہجوم
اتنے دِیے جلے کہ اندھیرا سا ہو گیا
یوں دل دہی کو دن بھی ہوا رات بھی ہوئی
گزری کہاں ہے عمر، گزارا سا ہو گیا
اچھا بہت لگا وہ ستاروں کا ٹوٹنا
رات اپنے جی کا بوجھ بھی ہلکا سا ہو گیا
ہر شام اک ملال کی عادت سی ہو گئی
ملنے کا انتظار بھی ملنا سا ہو گیا
نصیر ترابی
No comments:
Post a Comment