تھا تخت کبھی خاک نشینوں کی امانت
پھر بخت ہوئے شاہ کے زینوں کی امانت
گملوں میں اُگانے کا انہیں سوچ رہے ہو
جو بیج ہیں زرخیز زمینوں کی امانت
اک روز وہ صد ناز سے مہتاب پہ اُترے
جو پاؤں ہوئے علم کے زینوں کی امانت
کرتے ہیں رعونت سے عبادت کی نمائش
جو داغ ہیں کچھ تنگ جبینوں کی امانت
یہ کارِ شراکت ہے شہنشاہی و پیری
سو لوگ ہیں درگاہ کے زینوں کی امانت
ہم جیسوں پہ جچتی ہی نہیں ایسی ادائیں
یہ غمزہ و عشوہ ہیں حسینوں کی امانت
یہ خونِ غریباں سدا ارزاں رہا عرفی
پھر بھی ہے تقدس کے مہینوں کی امانت
عرفان عرفی
No comments:
Post a Comment