Tuesday, 28 September 2021

سوکھا ہوا دریا ہے نہ مانجھی ہے نہ پتوار

 سُوکھا ہوا دریا ہے نہ مانجھی ہے نہ پتوار

جانا ہے بہت دُور مجھے تنہا مِرے یار

اک روز جسے توڑ کے نکلا تھا میں خود سے

ہے میرے تعاقب میں ابھی تک وہی دیوار

کیا روکے گی یہ دنیا، مِرے عشق کا رستہ

کیا کاٹے گی سر کو مِرے یہ کاٹھ کی تلوار

ہم اُٹھ کے کدھر جائیں گے معلوم نہیں ہے

اپنی کوئی بستی نہ ٹھکانہ ہے نہ گھر بار

ہے یاد ابھی تک وہ تِرے شہر کا منظر

بارش میں وہ بھیگے تِرے قریے تِرے رخسار

ہاں روز ہی کرتا ہوں میں خود اپنی تلاوت

ہاں روز ہی وا ہوتا ہے مجھ پر کوئی اسرار

دیتے ہیں گواہی یہ کسی اور جہاں کی

یہ مرتے ہوئے جسم یہ مِٹتے ہوئے آثار

ہے آج متین اپنا گزر اُس کی گلی سے

سو خود کو سنوارا ہے دنوں بعد مِرے یار


یونس متین

No comments:

Post a Comment