Tuesday 28 September 2021

چلو فرار خودی کا کوئی صلہ تو ملا

 چلو فرارِ خُودی کا کوئی صِلہ تو مِلا

ہمیں ملے نہیں اُس کو، ہمیں خدا تو ملا

نشاطِ قریۂ جاں سے جدا ہوئی خوشبو

سفر کچھ ایسا ہے اب کے، کوئی ملا تو ملا

ہمارے بعد روایت چلی محبت کی

نظامِ عالمِ ہستی کو فلسفہ تو ملا

جو چھوڑ آئے تھے تسکین دل کے واسطے ہم

تمہیں اے جان تمنا! وہ نقشِ پا تو ملا

سوال آ گئے آنکھوں سے چھن کے ہونٹوں پر

ہمیں جواب نہ دینے کا فائدہ تو ملا

یہ آہ و گریہ و زاری کہیں تو کام آئی

ہوائے دشت کو، پانی کا ذائقہ تو ملا

نمازِ عصر نہیں پڑھ سکی مِری وحشت

جنونِ عشق کو میدان کربلا تو ملا

پھر اس کے بعد برآمد نہ ہو سکا کچھ بھی

ہماری آنکھ میں، جلتا ہوا دِیا تو ملا


ابھینندن پانڈے

No comments:

Post a Comment