Monday 27 September 2021

مجھ پر پڑی نگاہ تو اک شور مچ گیا

 مجھ پر پڑی نگاہ تو اک شور مچ گیا

یہ کون ہے جو گردشِ دوراں سے بچ گیا

کانٹوں نے اپنی خشک زبانیں نکال دیں

موسم کا سارا خون گلابوں میں رچ گیا

اک میں کہ میرے لب پہ تبسم بھی ناگوار

اک تُو کہ تیری آنکھ میں آنسو بھی جچ گیا

برسوں سے پی رہا تھا جو تلخابۂ حیات

میں ہوں وہ خوش نصیب جسے زہر پچ گیا

تاراج ہو گئی ہے وفا عصمتِ حیات

دل سے خلوص اور زبانوں سے سچ گیا


وفا حجازی

No comments:

Post a Comment