مجھ پر پڑی نگاہ تو اک شور مچ گیا
یہ کون ہے جو گردشِ دوراں سے بچ گیا
کانٹوں نے اپنی خشک زبانیں نکال دیں
موسم کا سارا خون گلابوں میں رچ گیا
اک میں کہ میرے لب پہ تبسم بھی ناگوار
اک تُو کہ تیری آنکھ میں آنسو بھی جچ گیا
برسوں سے پی رہا تھا جو تلخابۂ حیات
میں ہوں وہ خوش نصیب جسے زہر پچ گیا
تاراج ہو گئی ہے وفا عصمتِ حیات
دل سے خلوص اور زبانوں سے سچ گیا
وفا حجازی
No comments:
Post a Comment