درد سے آشنا نہیں ہوئے ہو
تم مِرے ہمنوا نہیں ہوئے ہو
ہم بھی مرتے نہیں تمہارے بغیر
تم اگر با وفا نہیں ہوئے ہو
مل ہی جائے گا بے رخی کا علاج
اس قدر لا دوا نہیں ہوئے ہو
راستہ ہی جدا ہوا ہے ابھی
دھڑکنوں سے جدا نہیں ہوئے ہو
آدمی ہو تم افتخار عجیب
اس سے اب بھی خفا نہیں ہوئے ہو
افتخار حیدر
No comments:
Post a Comment