دل کل کا مر گیا ہے کہ بے کل نہیں رہا
وہ غم جو زندگی تھا مسلسل نہیں رہا
سر سبز ہے زمین تِرے بانجھ پن کا بوجھ
پودوں پہ پھول پیڑوں پہ اک پھل نہیں رہا
خیرات، نذر، صدقہ کسی کا اثر نہیں
رنگِ خزاں بہار میں بھی ٹل نہیں رہا
وہ ہے کہ سارے شہر کو بس میں کیے ہوئے
میں ہوں کہ اپنے آپ پہ بس چل نہیں رہا
جی جی سمجھ رہا ہوں مگر یوں نہ گھورئیے
دنیا میں کوئی شخص مکمل نہیں رہا
اک بوجھ سا ہے سینے پہ ہونی کے خوف سے
اک درد ہے جو آنسوؤں میں ڈھل نہیں رہا
اکبر تمہارے اٹھنے سے محفل ہی اٹھ گئی
سو مسئلے ہیں، اور کوئی حل نہیں رہا
حسنین اکبر
No comments:
Post a Comment