Thursday 30 September 2021

پیچ و خم سے ہی نہ نکلا جسے عادل سمجھا

 پیچ و خم سے ہی نہ نکلا جسے عادل سمجھا

کیسا مُنصف تھا جسے شہر نے قاتل سمجھا

تیری قسمت میں فقط لکھ دی گئی رُسوائی

اس نے پیچھے سے کِیا وار تو کاہل سمجھا

سب کی نظریں انہیں پہچاننے سے قاصر ہیں

اک سوالی کی نگاہوں کو تو سائل سمجھا

میری کشتی بھی کبھی جُھوٹے بھنور سے نکلے

خُشک سالی تھی وہاں جس کو تھا ساحل سمجھا

وہ تو اک لحظہ تکلّم کا روادار نہ تها

ہائے وہ شخص جسے دِید کے قابل سمجھا


صوفیہ زاہد

No comments:

Post a Comment