Monday 27 September 2021

اپنے لہو میں زہر بھی خود گھولتا ہوں میں

اپنے لہو میں زہر بھی خود گھولتا ہوں میں

سوزِ دروں کسی پہ نہیں کھولتا ہوں میں

افلاک میری دردِ تہِ جام میں ہیں گم

تسبیحِ مہر و انجم و مہ رولتا ہوں میں

کچھ نہ سمجھ کے اٹھ چلے سب میرے غمگسار

جانے وہی کہ جس کی زباں بولتا ہوں میں

کیا جانے شاخِ وقت سے کس وقت گر پڑوں

مانند برگِ زرد ابھی ڈولتا ہوں میں

بازارِ دل میں درد کا گاہک نہیں کوئی

میزانِ آرزو میں زیاں تولتا ہوں میں

عمران بوئے گل سے ہیں ناخن مہک اٹھے

یہ کس حسیں کے بندِ قبا کھولتا ہوں میں


عمران الحق

No comments:

Post a Comment