وہ کہتے ہیں کہ ہم کو اس کے مرنے پر تعجب ہے
میں کہتا ہوں کہ میں زندہ رہا کیوں کر، تعجب ہے
مِری دو چار امیدیں بر آئی تھیں جوانی میں
مِرے اللہ! اتنی بات پر محشر، تعجب ہے
ہمیں ہیں عشق کو جو شغلِ بیکاری سمجھتے ہیں
ہماری ہی سمجھ پر پڑ گئے پتھر، تعجب ہے
وفاداری ہوئی ہے اس طرح مفقود دنیا سے
کہ خود مجھ کو یہاں تک کر گزرنے پر تعجب ہے
مِرے احباب کو حیرت ہے میں نے آج کیوں پی لی
نہیں کیوں آج تک پی تھی، مجھے اس پر تعجب ہے
بخاری تم جواں ہو، اور جوانی ایک نشہ ہے
تمہاری داستانِ غم مجھے سن کر تعجب ہے
زیڈ اے بخاری
ذوالفقار علی بخاری
No comments:
Post a Comment