انسان کے بارے میں
انہوں نے اس کے دہن پر زنجیریں لگا دیں
اس کے ہاتھوں کو مُردوں کے پتھر سے باندھ دیا
اور کہا؛ تم قاتل ہو
وہ اس کی غذا، اس کے ملبوسات
اس کے پرچم چھین لے گئے
اور اسے زندانِ مرگ میں پھینک دیا
اور کہا؛ تم چور ہو
انہوں نے اسے ہر بندرگاہ سے نکال باہر کیا
وہ اس کی جواں سالہ محبوبہ لے گئے
اور پھر کہا؛ تم پناہ گیر ہو
اے خوں میں آغشتہ آنکھوں اور ہاتھوں والے
یقیناً رات سریع الزوال ہے
نہ تو کوئی حراست گاہ ہمیشہ باقی رہے گی
اور نہ حلقہ ہائے سلاسل ہی
نیرو مر گیا، لیکن روم نہیں مرا
وہ اپنی آنکھوں سے لڑتا رہا
اور خشکیدہ سنبل کے بیج
وادی کو سنبلوں سے لبریز کر دیں گے
شاعری محمود درویش
اردو ترجمہ انور سن رائے
No comments:
Post a Comment