تپتے صحراؤں کی سوغات لیے بیٹھا ہے
پیاسی آنکھوں میں وہ برسات لیے بیٹھا ہے
چند مَسلے ہوئے صفحات لیے بیٹھا ہے
گھر کا بوڑھا جو روایات لیے بیٹھا ہے
عمر ہی تیری گزر جائیگی انکے حل میں
تیرا بچہ جو سوالات لیے بیٹھا ہے
زلفِ شب رنگ پہ رنگین کشیدہ آنچل
وہ کوئی تاروں بھری رات لیے بیٹھا ہے
تُو بہادر ہے مگر ہیچ ہے اس کے آگے
ایک بزدل جو تِری بات لیے بیٹھا ہے
کیسے کہہ دوں کہ اسے جینے کا حق ہے حامد
دل میں جو لاشۂ جذبات لیے بیٹھا ہے
حامد مختار
No comments:
Post a Comment