Monday 27 September 2021

کیسی آئی ہے بے بسی ہنس کر

 کیسی آئی ہے بے بسی ہنس کر

کٹ رہی ہے یہ زندگی ہنسں کر

اپنے انداز کا میں شیدا ہوں

کیسے روکوں میں بیخودی ہنس کر

پھر سے دینے لگا ہے غم دستک

گھر سے نکلا تھا وہ ابھی ہنس کر

نازنینوں کی بات مت کرنا

کرتی رہتی ہیں دل لگی ہنس کر

اس کو اس بات کا یقین نہیں

بھول جاؤں گا بے رخی ہنس کر

شامِ غم مجھ سے کہہ رہی ہے یہی

تُو بھی جی لے یہ زندگی ہنس کر

میں کہاں چاہتا ہوں اے ہمدم

کر لے تُو میری بندگی ہنس کر

جب مقدر میں روشنی ہی نہیں

ضبط کر لوں گا تیرگی ہنس کر

بیت جائے گی یہ جوانی جب

تب گزاروں گا پیر گی ہنس کر

خوش ادائی عجیب ہے قیصر

وار وہ مجھ پہ کر گئی ہنس کر


امتیاز قیصر

No comments:

Post a Comment