کیسی آئی ہے بے بسی ہنس کر
کٹ رہی ہے یہ زندگی ہنسں کر
اپنے انداز کا میں شیدا ہوں
کیسے روکوں میں بیخودی ہنس کر
پھر سے دینے لگا ہے غم دستک
گھر سے نکلا تھا وہ ابھی ہنس کر
نازنینوں کی بات مت کرنا
کرتی رہتی ہیں دل لگی ہنس کر
اس کو اس بات کا یقین نہیں
بھول جاؤں گا بے رخی ہنس کر
شامِ غم مجھ سے کہہ رہی ہے یہی
تُو بھی جی لے یہ زندگی ہنس کر
میں کہاں چاہتا ہوں اے ہمدم
کر لے تُو میری بندگی ہنس کر
جب مقدر میں روشنی ہی نہیں
ضبط کر لوں گا تیرگی ہنس کر
بیت جائے گی یہ جوانی جب
تب گزاروں گا پیر گی ہنس کر
خوش ادائی عجیب ہے قیصر
وار وہ مجھ پہ کر گئی ہنس کر
امتیاز قیصر
No comments:
Post a Comment