Sunday 26 September 2021

خواب آنکھوں میں سجانا بھی ضروری ٹھہرا

 خواب آنکھوں میں سجانا بھی ضروری ٹھہرا 

زندہ رہنے کا بہانہ بھی ضروری ٹھہرا 

اس کو احساسِ پذیرائی دلانے کے لیے 

در و دیوار سجانا بھی ضروری ٹھہرا 

جو ستم اس نے کیۓ اس کو جتانے کے لیے 

آئینہ اس کو دکھانا بھی ضروری ٹھہرا 

تیری یادیں جو پریشان کئے رکھتی ہیں 

اس لیے تجھ کو بھلانا بھی ضروری ٹھہرا 

محو ہو جائے مِرے ذہن سے بھی اس کی شبیہ 

اس کی تصویر ہٹانا بھی ضروری ٹھہرا 

یہ ہے دستور محبت کہ ہمیشہ جس میں 

وصل کے ساتھ بچھڑنا بھی ضروری ٹھہرا 

اپنے چہرے پہ سجا لی ہے یہ بے کیف ہنسی 

درد کو دل میں چھپانا بھی ضروری ٹھہرا 

رسم الفت کو نبھانا ہے صبیحہ یوں بھی 

روٹھ جائے تو منانا بھی ضروری ٹھہرا


صبیحہ خان

No comments:

Post a Comment