یہ وقت ہجر میں اب پاس بھی نہیں ہوتا
اُسے ہمارا تو احساس بھی نہیں ہوتا
یہ شعر و شاعری ہر آدمی کا شوق نہیں
ہر ایک آدمی حساس بھی نہیں ہوتا
یہ میرے دوست سمندر نہیں ہیں آنکھوں میں
یہ اشک ریزۂ الماس بھی نہیں ہوتا
میں جانتا ہوں کہ مشکل ہے عمر بھر ملنا
مگر یہ دل ہے کہ بے آس بھی نہیں ہوتا
یہ چاٸے خانے بھی ویران ہیں مہینوں سے
سخنوروں کا تو اجلاس بھی نہیں ہوتا
غزل تو ہوتی ہے لیکن کبھی کبھی تو اسد
بیاض و خامہ و قرطاس بھی نہیں ہوتا
اسد اعوان
No comments:
Post a Comment