بزدلی تو وہ کر نہیں سکتا
جو ہے سچا وہ ڈر نہیں سکتا
جسم دنیا بھلے ہی دفنا دے
پیار زندہ ہے مر نہیں سکتا
بھوک میں صرف چاہیۓ روٹی
پیٹ باتوں سے بھر نہیں سکتا
جھوٹ چاہے بلند ہو کتنا
سچ کے آگے ٹھہر نہیں سکتا
آپ دیکھیں تو اس کا حسن بڑھے
آئینہ خود سنور نہیں سکتا
جو بھی ساحل کا ہے تماشائی
پار دریا وہ کر نہیں سکتا
علی ساحل
No comments:
Post a Comment