Sunday 26 September 2021

ایک وعدے پہ یار کر بیٹھے

ایک وعدے پہ یار کر بیٹھے

ہم تِرا اعتبار کر بیٹھے

جب سے دیکھا ہے آپ کو ہم نے

عشق سر پر سوار کر بیٹھے

اور تو کچھ نہیں کِیا ہم نے

زندگی سوگوار کر بیٹھے

ایک تیری خوشی کی خاطر ہم

ہر خوشی درکنار کر بیٹھے

کام کوئی نہیں ہوا ہم سے

سو تِرا انتظار کر بیٹھے

بات لہجہ پہ آ گئی ساری

اور پھولوں کو خار کر بیٹھے


منزہ نور

No comments:

Post a Comment