ایک وعدے پہ یار کر بیٹھے
ہم تِرا اعتبار کر بیٹھے
جب سے دیکھا ہے آپ کو ہم نے
عشق سر پر سوار کر بیٹھے
اور تو کچھ نہیں کِیا ہم نے
زندگی سوگوار کر بیٹھے
ایک تیری خوشی کی خاطر ہم
ہر خوشی درکنار کر بیٹھے
کام کوئی نہیں ہوا ہم سے
سو تِرا انتظار کر بیٹھے
بات لہجہ پہ آ گئی ساری
اور پھولوں کو خار کر بیٹھے
منزہ نور
No comments:
Post a Comment