ہے ابھی تک اسی وحشت کی عنایت باقی
کوئی بھی چیز نہیں گھر کی سلامت باقی
میں بھلا ہاتھ دُعاؤں کو اُٹھاتا کیسے؟
اس نے چھوڑی ہی نہیں کوئی ضرورت باقی
اس نے ٹُوٹے ہوئے ٹکڑوں سے بھی پہچان لیا
ہے بکھر کر بھی میاں! میری نفاست باقی
بے نشاں کوئی نہ اُجڑے ہوئے کھنڈرات رہیں
ان میں رہتی ہے ابھی گھر کی شباہت باقی
پہلے جذبات چھلک پڑتے تھے خاموشی سے
اب تو لہجوں میں بھی ہے خالی مروّت باقی
خود کو عادت کوئی پڑنے ہی نہیں دیتا ہوں
میری اب تک ہے ہمیشہ کی یہ عادت باقی
میرے چُھونے سے کلی پُھول بنی جاتی ہے
میرے ہاتھوں میں ابھی تک ہے شرارت باقی
میں نظر آؤں تو دِکھتا نہیں سورج اختر
ایک ہی رہ گئی چھوٹی سی کرامت باقی
جنید اختر
No comments:
Post a Comment