Thursday 30 September 2021

آہ و فریاد کا اثر دیکھا

 آہ و فریاد کا اثر دیکھا

خود کو مجبور بیشتر دیکھا

بن گیا ہے نقابِ تنگ دلی

شہرۂ وسعتِ نظر دیکھا

جسم نے ڈال دی سِپر جب سے

روح کو عازمِ سفر دیکھا

حشر کا معتقد ہوا جس نے

منظرِ مطلعِ سحر دیکھا

ناؤ ساحل پہ لگ گئی آ کر

اپنے شانہ پہ ان کا سر دیکھا

طمع پندار جور حرص فریب

گامزن کاروانِ زر دیکھا

شُبہ ذوقِ نظر نہ ہو جس پر

ایک ایسا بھی دیدہ ور دیکھا

کر لیا ان کے اجتناب پہ صبر

جب سے اغماضِ راہبر دیکھا

دل کا آئینہ رو بہ رو لائے

اس لیے ان کو خود نگر دیکھا

جس کی ایک اپنی کائنات نہ ہو

حامد ایسا کوئی بشر دیکھا


سید حامد

No comments:

Post a Comment