Monday, 27 September 2021

سنا ہے ساقی ترا لطف عام ہے شاید

 سنا ہے ساقی تِرا لطف عام ہے شاید

بغیر وقفے کے، گردش میں جام ہے شاید

سمجھ میں آتی نہیں کچھ زباں ترنم کی

یہ آبشار بھی محوِ کلام ہے شاید

تجھے بھلانے کی ہم نے عبث ہے کوشش کی

کتابِ دل پہ لکھا تیرا نام ہے شاید

چھپا ہے چاند جو بادل میں، یہ اشارہ ہے

حسیں وہ آ گیا بالائے بام ہے شاید

سمجھ رہے ہیں زعیمانِ خود غرض پیہم

کہ اُن کے ہاتھ میں بختِ عوام ہے شاید

فضائے دہر پہ ہے اک جمود کا عالم

عقابِ وقت ہوا زیرِ دام ہے شاید

زوال آنے سے پہلے عروج لازم ہے

یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید

فنا جو عشق میں ہو، اس کو کامراں دیکھا

وفا کی راہ میں جینا حرام ہے شاید

زباں پہ پھول کی ہے انبساط کا نغمہ

چمن میں شوخ وہ محوِ خرام ہے شاید


تنویر پھول

No comments:

Post a Comment