Sunday 26 September 2021

وفاؤں کا جو دعویٰ ہو رہا ہے

 وفاؤں کا جو دعویٰ ہو رہا ہے

بتاؤ، کیا تماشا ہو رہا ہے

مجھے سچی محبت کا گماں تھا

یہاں پر بس دِکھاوا ہو رہا ہے

ہمیں سکھلا رہے ہیں گُر سبھی کو

ہمیں سے پھر چھلاوا ہو رہا ہے

رقیبوں پر عنایت کر رہے ہو

مِرے غم کا مداوا ہو رہا ہے

وہ سنتا ہی نہیں ہے شعر میرے

ہنر اپنا یہ ضائع ہو رہا ہے

بہت معصوم بن کر پوچھتے ہیں

تمہیں حمزہ بھلا کیا ہو رہا ہے


حمزہ بلال

No comments:

Post a Comment