Monday 27 September 2021

بزم جاناں میں اگر اظہار حال دل نہ ہو

 بزمِ جاناں میں اگر اظہارِ حالِ دل نہ ہو

زندگی ہو جائے آساں موت بھی مشکل نہ ہو

کشتی عمر رواں کے ڈوبنے کا خوف کیا

آرزو ہے بحر الفت کا کوئی ساحل نہ ہو

کون امیدوں کو پالے راہِ وصلِ یار میں

قافلہ چلتا رہے کب تک اگر منزل نہ ہو

رقصِ پروانہ تو ظلمت میں بھی رک سکتا نہیں

شمع ہی کیا جو کبھی روشن سرِ محفل نہ ہو

جلوہ گر ہو یا نہ ہو یہ منحصر ہے حسن پر

اے نگاہِ شوق تیرا کام ہے غافل نہ ہو

گفتگوئے دو بدو سے کب مجھے انکار ہے

شرط یہ ہے درمیاں پردہ کوئی حائل نہ ہو

جذبۂ اخلاص تو ہے بر سبیلِ تذکرہ

چاہے میری شاعری ناظر کسی قابل نہ ہو


عبداللہ ناظر

No comments:

Post a Comment