پیماں وفا کے باندھ کے جانے کدھر گیا
صحرائے ہجر میرے لیے بن بھنور گیا
میری نگاہ شرمگیں جھکتی چلی گئی
اس کا بھی شوق مہر و وفا پر اثر گیا
اک شوخ سی نگاہ جو رخ پر جمی رہی
عارض پہ اک حسین سا غازہ اتر گیا
اس کی کتابِ شوق کا سادہ ورق تھی میں
میرا بھی عشق دیکھ کے اس کو سنور گیا
منزل کی چاہتوں میں قدم رقص میں رہے
بے کار عمر رائیگاں کا یہ سفر گیا
چھایا تھا مہربان سا بادل جو دھوپ میں
موجِ صبا جدھر گئی وہ بھی ادھر گیا
کچھ شام سے لپٹ کے شفق یوں جدا ہوئی
لگتا تھا اب کے ہاتھ سے دل کا نگر گیا
نیر رانی شفق
No comments:
Post a Comment