Monday 27 September 2021

دئیے ہیں زیست نے مجھ کو بڑے آلام تیرے بعد

 دئیے ہیں زیست نے مجھ کو بڑے آلام تیرے بعد

مٹا بیٹھا ہوں اپنی ذات اپنا نام تیرے بعد

تِرے نینوں ہی سے پی کر مِرا دل مست ہوتا تھا

مزہ دیتا نہیں ہے مجھ کو یارا جام تیرے بعد

تُو جانا چاہتا تھا، میں نے بھی تجھ کو نہیں روکا نا

مگر دل کی زمیں پر اک مچا کہرام تیرے بعد

اگر قاصد وہ میرے حال کا پوچھے تو کہہ دینا

تڑپتا ہے سسکتا ہے وہ صبح و شام تیرے بعد

تِرے ہوتے مِری قیمت نہ بھر پایا کوئی لیکن

سرِ بازار میں تو بِک گیا بے دام تیرے بعد

کبھی جو لوٹ کر تُو میرے اُجڑے گھر میں آئے گا

تو پھر بتلاؤں گا کیسے کٹے ایّام تیرے بعد

تعلق میری خوشیوں کا جڑا ہے تجھ سے یوں جاناں

کہ دن کو چین ہے نہ رات کو آرام تیرے بعد

تِرے اس ہجر نے مجھ کو بھی شاعر کر دیا باسط

کہ دل پر ہو رہے ہیں رات دن الہام تیرے بعد


باسط علی حیدری 

No comments:

Post a Comment