میرا گھر اس لیے سلامت ہے
میرے ماں باپ کی کرامت ہے
میں تِرے ساتھ ہی رہی اب تک
تجھ کو کس بات کی ملامت ہے
چھوٹا منہ ہے مگر بڑی باتیں
یہ تفاخر کی اک علامت ہے
جس سے توبہ قبول ہو جائے
وہ فقط آنسوئے ندامت ہے
سیدھا جنت میں ان کو لے جائے
کیا وہ مسجد کی اک امامت ہے
شاد و آباد ہو وطن میرا
میرے پُرکھوں کی جو امانت ہے
اس کے ہاتھوں کے سانولے پن میں
نیلی چُوڑی بھی اک قیامت ہے
صوفیہ تھام بے لگامی کو
اب تو لگتا ہے تیری شامت ہے
صوفیہ زاہد
No comments:
Post a Comment