Saturday, 30 October 2021

اذیت سے بہت یہ ذہن و دل اپنا گزرتا ہے

 اذیت سے بہت یہ ذہن و دل اپنا گزرتا ہے

انا کو چند سکوں کے لیے جب جھکنا پڑتا ہے

یہ نوکر پیشہ لوگوں کا بھی عالم کربلا کا ہے

سُلجھتا ہے اگر اک مسئلہ تو اک اُلجھتا ہے

تمنائیں بھی یکساں خون بھی قسمت جدا کیوں ہے

یہ کس نے آدمی کو کمتر و برتر میں بانٹا ہے

امربیل ایسا اس کا پیار لپٹا ہے مجھے گویا

میں اس میں جی رہی ہوں اور وہ بس مجھ میں زندہ ہے

ہماری دشمنی ہے جانیے سارے زمانے سے

کہ بس اک شخص کی خاطر جہاں سے بیر باندھا ہے

جو اک بچے کو دیکھوں، دیکھتا ہے دوسرا مجھ کو

میری مجبوریوں نے فرق بچوں میں بھی رکھا ہے

کوئی دکھ بانٹتا ہے، اور کسی کو سہنا پڑتے ہیں

یہ انساں اپنی فطرت میں بہت ہی مختلف سا ہے

کوئی بچہ پجارو میں، کوئی جاتا ہے پیدل ہی

خدایانِ علوم و فن نے کیسا فرق رکھا ہے

کبھی اپنی چھپائی ہی نہیں خامی کسی سے بھی

عیاں ہے وہ سبھی جو زندگی نے مجھ کو بخشا ہے

اٹھا دیتے ہو آسانی سے انگلی اوروں کی جانب

کہو اپنے مقابل بھی، کبھی آئینہ رکھا ہے؟

بہت کھویا ہے خود کو، تجھ کو پا لینے کی خواہش میں

تیری یادوں میں غافل ہو کہ یوں خود کو بھلایا ہے

لکھا ہے بس وہی میں نے ملی ہے جس میں سچائی

کہ آئینہ میری تحریر، عالم کی صدا کا ہے

جو بچہ کھا رہا ہے روٹیاں کچرے سے چُن چُن کر

یہ حیرت ہے کہ مرتا کیوں نہیں وہ کیسے زندہ ہے

نہیں ہے مسئلہ یہ چند لوگوں کا فقط زیبی

یہ اُجلے کالروں کا اجتماعی درد بنتا ہے


زیب النساء زیبی

No comments:

Post a Comment