Sunday, 31 October 2021

ملے نہ درد بھی ساقی شراب کے بدلے

 مِلے نہ ٭دُرد بھی ساقی شراب کے بدلے

جلے نہ کیونکہ مِرا دل کباب کے بدلے

پسند ہوں تو لگا لیجے زِینِ توسن میں

ہماری آنکھوں کے حلقے رکاب کے بدلے

سنبھلا ہوش تو مرنے لگے حسینوں پر

ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے

الم پسند ہوں کیا کیا ہیں خاطریں میری

قرار دہر کو ہے انقلاب کے بدلے

سبب ہے کیا جو وہاں نامہ بر کو دیر ہوئی

وہ آپ آئیں گے شاید جواب کے بدلے

چمک رہا ہے شبِ ہجر کلبۂ غم میں

ہمارا داغِ جِگر آفتاب کے بدلے

وہ بادہ کش ہوں کہ غفلت ہوئی تو ساقی نے

دیا شراب کا چِھینٹا گلاب کے بدلے

فِراقِ یار میں گِنتے ہیں ساعتِ شبِ ہجر

یہِیں عذاب ہے روزِ حساب بدلے

سخن غذا ہےجو ہجرِ صنم میں لختِ جگر

تو خونِ دل ہے ہمارا شراب کے بدلے


سخن دہلوی

٭دُرد = شراب کی تلچھٹ

No comments:

Post a Comment