دیکھ او قاتل بسر کرتے ہیں کس مشکل سے ہم
چارہ گر سے درد نالاں، درد سے دل، دل سے ہم
ہائے کیا بے خود کیا ہے غفلتِ امید نے
حالِ دل کہتے ہیں اپنا پھر اسی قاتل سے ہم
رشکِ اعدا نے کیے روشن بدن میں استخواں
شمعِ محفل ہو کے اٹھے آپ کی محفل سے ہم
اس کو کہتے ہیں وفاداری کہ بعد از قتل بھی
داغِ خوں ہو کر نہ چھوٹے دامنِ قاتل سے ہم
طول تھی راہِ عدم گھبرا کے سوئے قبر میں
پاؤں پھیلائے تھکے جب دورئ منزل سے ہم
جسم روشن سے نظر آتے ہیں جلوے روح کے
حسنِ لیلیٰ دیکھتے ہیں پردۂ محمل سے ہم
خالی از احساں نہیں یہ بھی کہ وقتِ اضطراب
خوش تو ہو جاتے ہیں تیرے وعدۂ باطل سے ہم
آؤ آپس میں سمجھ لیں غیر کاہے کو سنے
تم کہو دل سے ہمارے کچھ تمہارے دل سے ہم
سن کے رو دیتے ہیں اکثر صورتِ زخمِ جگر
آپ شرماتے ہیں اپنے خندۂ باطل سے ہم
رشک ہے حسرت پہ اس کی دل میں آتا ہے یہی
اپنے قالب کو بدل لیں قالبِ بِسمل سے ہم
سینۂ دل میں ہجومِ داغِ حسرت ہے نسیم
پھول چن لیتے ہیں اپنے گلشنِ حاصل سے ہم
نسیم دہلوی
No comments:
Post a Comment