قتلِ عشاق کِیا کرتے ہیں
بت کہاں خوفِ خدا کرتے ہیں
سر مِرا تن سے جدا کرتے ہیں
درد کی آپ دوا کرتے ہیں
خم ابروئے صنم کو دیکھیں
ہم یہ کعبے میں دعا کرتے ہیں
اپنے ساقی کو شبِ فرقت میں
پانی پی پی کے دعا کرتے ہیں
شورِ محشر سے ڈریں کیا عاشق
ایسے ہنگامے ہوا کرتے ہیں
مہندی ملنے کے بہانے قاتل
کفِ افسوس ملا کرتے ہیں
عوضِ بادہ غمِ ساقی میں
خونِ دل اپنا پیا کرتے ہیں
جو ہمیں بھول گیا ہے ظالم
اس کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
ہم بنے چاند کے ہالے گویا
گِرد اس مہ کے رہا کرتے ہیں
فقیر محمد گویا
No comments:
Post a Comment