ہوا کے رخ پہ کھلا بادباں اندھیرے کا
یہاں پہ نام نہیں اب کسی سویرے کا
اٹھا کے لے گیا ثروت کبھی کا ہے جوگی
کوئی سراغ نہیں اب اسی کے پھیرے کا
ہوائے گرم کے تپتے لباس میں پہروں
وہ سایہ ٹانکتا ہے ہر شجر گھنیرے کا
ہر ایک شاخ سے صندل کے سانپ ہیں لپٹے
اثر پذیر نہیں کوئی دم سپیرے کا
سکوت وہ ہے کہ جامد ہے لمحۂ موجود
حیات خواب ہو جیسے کسی لٹیرے کا
ہر ایک سانس پہ دھڑکا ہے موت کا عابد
یہ زندگی ہے کہ ہے گھر کسی وڈیرے کا
عابد ودود
No comments:
Post a Comment