Friday, 29 October 2021

ہوا کے رخ پہ کھلا بادباں اندھیرے کا

 ہوا کے رخ پہ کھلا بادباں اندھیرے کا

یہاں پہ نام نہیں اب کسی سویرے کا

اٹھا کے لے گیا ثروت کبھی کا ہے جوگی

کوئی سراغ نہیں اب اسی کے پھیرے کا

ہوائے گرم کے تپتے لباس میں پہروں

وہ سایہ ٹانکتا ہے ہر شجر گھنیرے کا

ہر ایک شاخ سے صندل کے سانپ ہیں لپٹے

اثر پذیر نہیں کوئی دم سپیرے کا

سکوت وہ ہے کہ جامد ہے لمحۂ موجود

حیات خواب ہو جیسے کسی لٹیرے کا

ہر ایک سانس پہ دھڑکا ہے موت کا عابد

یہ زندگی ہے کہ ہے گھر کسی وڈیرے کا


عابد ودود

No comments:

Post a Comment