Thursday 28 October 2021

بڑھا کے ہاتھ زمیں سے اٹھا لیا جائے

 بڑھا کے ہاتھ زمیں سے اٹھا لیا جائے

جو بچ گیا ہے اسی کو بچا لیا جائے

انا کی جنگ نے برباد کر دئیے رشتے

اگرچہ عشق ہے تو سر جھکا لیا جائے

ہمارے دل پہ کبھی آپ کی حکومت تھی

تو کیوں نہ آپ سے ہی مشورہ لیا جائے

کہ جگمگاتی اداسی ہے شہر میں تیرے

چلو اداسی کا مل کر مزا لیا جائے

اٹھے تو چل ہی پڑیں گے یہ کارواں کے ساتھ

گرے پڑوں کو گلے سے لگا لیا جائے

میں ایک چور، چُراتا ہوں قیمتی زیور

تمہاری آنکھ سے آنسو چُرا لیا جائے

سُلگتی ریت کے اس پار عشق کا دریا

مِرے خیال سے پاؤں جلا لیا جائے


مصور فیروزپوری

No comments:

Post a Comment