Sunday, 31 October 2021

اشک پلکوں پہ جو آئیں تو چھپائے نہ بنے

 اشک پلکوں پہ جو آئیں تو چُھپائے نہ بنے

ٹُوٹ کر بکھریں یہ موتی تو اُٹھائے نہ بنے

قہر ہے اپنے لیے سوزِ دروں کا عالم

دیکھنا گر کوئی چاہے تو دِکھائے نہ بنے

کس طرح ہاتھ اُٹھاؤں میں دُعا کی خاطر

ہاتھ اک پَل بھی تو سینے سے ہٹائے نہ بنے

قصۂ حسرتِ دل ہم سے بیاں کیا ہو گا

بے رُخی ان کی ہے ایسی کہ بتائے نہ بنے

ظُلم کو ظُلم سمجھتا ہے کہاں وہ ظالم

حالِ دل اپنا ستمگر کو سُنائے نہ بنے

کون سی بات تھی کیا طرزِ ادا تھی انجم

نقش ایسا ہوا دل پر کہ مٹائے نہ بنے


مشتاق انجم

No comments:

Post a Comment