رات سے رات نے کل رات کہا؛
کوئی ترکیب تو کرنی ہو گی‘‘
لوگ سورج کو بلا لیں کہیں
لوگ پھر تان کے سینہ نہ کہیں مدِ مقابل آ جائیں
’’ہم سے ڈرنا نہ کہیں چھوڑ دیں سب
رات نے قدرے توقف کر کے
دھیرے سے کہا؛
ایک ترکیب مجھے سوجھی ہے‘‘
وہ جو اک دھیمی سی سہمی سی کرن دیکھتی ہو
بس اسی پر ہے نشانہ کرنا
یعنی، اک چھید جو کارندے کی غلطی سے کہیں چھوٹا تھا
یہ کرن بس اسی اک چھید پہ نازاں ہے بہت
آؤ، اس چھید پہ اک رات سے پردہ کر دیں
’’اور اس چھید میں دس راتوں کی کالک بھر دیں
کوثر مظہری
No comments:
Post a Comment