یہ بات ذہن میں رکھ روشنی میں آتے ہوئے
ہزار راتیں لگیں ہم کو دن بناتے ہوئے
پہنچ رہا تھا مِرے وہم سے بھی آگے کوئی
سو شرم آنے لگی اس کو آزماتے ہوئے
اسے خبر تھی کہ منزل بہت قریب ہے اب
وہ رو پڑا تھا مجھے نیند سے جگاتے ہوئے
نہ جانے کتنی امیدوں کا پاس رکھنا تھا
یہ بھول بیٹھے تھے اس کو گلے لگاتے ہوئے
پھر ایک شام وہ منظر سے ہو گیا غائب
لگی تھی عمر جسے داستاں میں لاتے ہوئے
صداقت نیازی
No comments:
Post a Comment