Sunday, 31 October 2021

کشتیاں ڈالتے ہیں پانی میں

 کشتیاں ڈالتے ہیں پانی میں

آج طبع ہے کچھ روانی میں

جی رہا ہوں میں آج تک خوش خوش

تیری بھیجی ہوئی نشانی میں

صرف ہوتے ہیں رات دن ہم لوگ

لغزشِ رنج رائیگانی میں

جس کی دہشت میں یہ زمین ہے وہ

خوف ہے رنگِ آسمانی میں

اس نے میٹھا ملا دیا ہو گا

اپنے ہاتھوں کا چائے دانی میں

اور بھی اک سوال پیدا ہوا

کیا چھپایا ہے اس نے یعنی میں

میرے کردار کے سوا تو کمال

کچھ نہیں آپ کی کہانی میں


اسد کمال

No comments:

Post a Comment