Thursday 28 October 2021

نامرادی ہی لکھی تھی سو وہ پوری ہو گئی

 نامرادی ہی لکھی تھی سو وہ پوری ہو گئی

زندگی جل کر بجھی اور راکھ جیسی ہو گئی

لوگ کیا سمجھیں کہ غم سے شکل کیسی ہو گئی

آئینہ ٹوٹا تو قیمت اور دونی ہو گئی

رفتہ رفتہ دوریوں سے آنچ دھیمی ہو گئی

لیکن اک تصویر تھی دل میں جو گہری ہو گئی

دو نگاہوں کا تصادم چند لمحوں کا سوال

اور رسوائی جہاں میں عمر بھر کی ہو گئی

یاد سے تیری ہوئے پر نور اپنے روز و شب

دل کی رعنائی بڑھی اور رات اجلی ہو گئی

سوزِ دل نے رفتہ رفتہ راکھ ہم کو کر دیا

ہم یہ سمجھے تھے کہ شاید آگ ٹھنڈی ہو گئی

کتنے جوہر کر دیئے پیدا مآلِ عشق نے

دل میں کیسا سوز کیسی درد مندی ہو گئی

وجد ہم اب تک نہ سمجھے رمزِ تکمیلِ وفا

دم گُھٹا راتوں کو اکثر جان آدھی ہو گئی


وجد چغتائی

No comments:

Post a Comment