Wednesday 27 October 2021

اب مسیحا ترے آنے کے بہانے نکلے

 اب مسیحا! تِرے آنے کے بہانے نکلے

دل کے گوشے میں کئی زخم پرانے نکلے

سوکھ جانے کے ہیں دریاؤں کے امکان بہت

برف کے پھول کھلے دھوپ کے دانے نکلے

دیکھنا کتنے ہی سیلاب امنڈ آئیں گے

آنکھ میں اشک لیے ٹوٹے گھرانے نکلے

شام ہوتے ہی جو دہلیز پہ آہٹ سی ہوئی

میرے آنگن سے کئی خواب سہانے نکلے

پھر وہی خط وہی سوکھے ہوئے پھولو کے ورق

ڈائری جب بھی کُھلی، ملتے زمانے نکلے


اسد رضوی

No comments:

Post a Comment