Thursday 28 October 2021

مجھ کو بانٹا بھی گيا مال غنيمت کی طرح

 خطِ تقسيم جو انسان نے زمين پہ کھينچی

ميری تذليل کا  آغاز اسی دن سے ہوا

کتنی چہروں سے تقدس کی نقابيں نوچوں

ميری بربادی کا سامان بہم جن سے ہوا

رسمِ قربانی کا آغاز ہوا ہے مجھ سے

کتنے خونخوار حکايات کی سولی پہ چڑھی

جھوٹے معبودوں کي مطلوب رہی خوشنودی

ميں اپالو، کبھی عشتار کے معبد ميں لُٹی

ميں سُلگتے ہوئے صحراؤں ميں دفنائی گئی

اور کبھی نيل کی طغيانی کا نذرانہ بنی

مجھ کو بانٹا بھی گيا مالِ غنيمت کی طرح

مرد مفتوح ہوئے تو جنگ کا جرمانہ بنی

کرۂ ارض کے تاريک سماجوں کی قسم

کتنے تمغوں سے نوازا مجھے شب زادوں نے

جھوٹی عظمت کے فلک بوس مناروں کی قسم

کتنی ديواروں ميں چُنوايا ہے جلادوں نے


مشتاق علی شان

No comments:

Post a Comment