آنکھوں کے انتخاب کا صدقہ اتاریئے
گر ہو سکے تو خواب کا صدقہ اتاریئے
کربِ فراقِ یار سے مرنے کو ہے یہ دل
اس خانماں خراب کا صدقہ اتاریئے
جی بھر کے دیکھیۓ اسے پھر رات رات بھر
پہلے تو ماہتاب کا صدقہ اتاریئے
خوشبو اتر گئی ہے رگ و پے میں دفعتاً
کھلتے ہوئے گلاب کا صدقہ اتاریئے
لگ جائیں نہ کہیں انہیں نظریں ہماریاں
ایسا کریں جناب کا صدقہ اتاریئے
اک عرض کر رہا ہوں اگر مانیۓ اسد
کچھ وارئیے شباب کا صدقہ اتاریئے
اسد کمال
No comments:
Post a Comment