خواب کے اندر خواب کا منظر
پھر سے تم کو خواب میں دیکھا
سوتے سوتے جاگ گئی میں
میں یہ سمجھی، تم آئے ہو
آہٹ پا کر بھاگ گئی میں
دروازہ ویران پڑا تھا
دل پاگل حیران بڑا تھا
سامنے وہ اک شخص کھڑا تھا
مجھ سے آ کر بول رہا تھا؛
جانتا ہوں میں
تم نے مجھ سے پیار کیا ہے
کون ہے مجھ کو اتنا چاہے
آدھی رات اٹھے بستر سے
آہٹ پا کر دوڑا آئے
تم بھی کتنی پاگل ہو ناں
آدھی رات کو جاگ رہی ہو
مجھ کو رب سے مانگ رہی ہو
آ گیا ہوں ناں
قید کرو گی؟
یا پھر مجھ کو جانے دو گی؟
اچھا پھر سے کھو دو گی؟
صحرا صحرا پھر ڈھونڈو گی؟
فیصلہ کر لو
ڈور تمہارے ہاتھ میں ہے
واحد تم ہو جس کے اندر
میں نے یہ ہمت دیکھی ہے
ایک ہی شخص کو
چاہے جاؤ، چاہے جاؤ
فیض ملے نہ
پھر بھی اس سے پیار نبھاؤ
حیرت ہے ناں
ساری دنیا مطلب کی ہے
لیکن کتنا سوچا میں نے
دنیا میں کوئی کس کا، کب ہے؟
تم کو مجھ سے کیا مطلب ہے؟
کچھ بھی نئیں ناں
جانے کیا ہے
میں نے ان آنکھوں کے اندر
اتنی حیرت کیوں دیکھی ہے
اتنی چاہت کیوں دیکھی ہے
جب ہی تم سے پوچھ رہا ہوں
قید کرو گی؟
قیدی بن کر رہ لوں گا میں
دنیا والے بھاڑ میں جائیں
طعنے وانے سہہ لوں گا میں
چاہے گا کوئی ٹوٹ کے مجھ کو؟
لیکن بس تم
سوچ رہا ہوں
سوچ رہا ہوں تم کو اتنا اذن میں دے دوں
مجھ کو آنکھ میں کاجل کر لو
جب بھی چاہو دیکھ لو مجھ کو
خواب بنا کر آنکھ میں بھر لو
بھرنا ہے کیا؟
اور برا نا مانو تو میں
اندر آؤں؟
میں بھی کتنی پاگل ہوں ناں
دروازہ بھی کھول دیا ہے
اور کھڑی ہوں روک کے رستہ
اندر آئیے بیٹھیۓ بھی ناں
پانی لاؤں؟
دانتوں میں پھر ہونٹ دبا کر
بکھری زلفیں سلجھا کر
میچ کے آنکھیں رو دی ہوں میں
سوچ رہی ہوں
آنسو پونچھو
پونچھو بھی اب
لیکن یہ تو خواب ہے ناں
خواب کے اندر خواب کا منظر
اور یہ آنسو
بھیگے عارض بھیگا تکیہ
اففف اففف
تم بھی ناں
کنول ملک
No comments:
Post a Comment