سہتا رہا جہاں کے ستم خوش دلی کے ساتھ
میں تو ہمیشہ خوش رہا تیری خوشی کے ساتھ
دِکھنے میں یوں لگے کہ ہیں یک جان اور دو قلب
وہ ساتھ چل رہے تھے مگر بے رُخی کے ساتھ
میں چُپ رہا تھا،۔ میرا قلم چیختا رہا
پھیلی تِری خبر بھی مِری خامشی کے ساتھ
جس طرح جاتے جاتے کہا تُو نے؛ الوداع
آنکھیں نہ میل کھاتی تھی اس کج روی کے ساتھ
ناداں ہوں، نا سمجھ ہوں، ابھی طفلِ عشق ہوں
کیجے نہ ایسے ہاتھ مِری سادگی کے ساتھ
روٹی میں یوں لپیٹ کے دھوکہ نہ دیجیۓ
مت کیجے یوں مذاق مِری مفلسی کے ساتھ
دنیا میں عافیت رہے،۔ آخر میں مغفرت
مالک سمانا کی یہ رضا عاجزی کے ساتھ
میں نے کبھی دُکھایا نہیں جب کسی کا دل
کیوں کھیلتے ہیں لوگ مِری بے بسی کے ساتھ
شہزاد سمانا
No comments:
Post a Comment