Thursday 28 October 2021

آئندہ پھر نہ آئے کبھی ہجر یار میں

آئندہ پھر نہ آئے کبھی ہجرِ یار میں

جی چاہتا ہے آگ لگا دُوں بہار میں

آنے لگا وہ کیوں مِرے اُجڑے دیار میں

دن رات جس کی چين سے گُزرے بہار میں

وہ آئیں یا نہ آئیں یہ اُن کے کرم پہ ہے

ہم تو اُٹھا رہے ہیں مزے انتظار میں

سب کچھ بُھلا چُکا ہوں محبت میں آپ کی

اِک یاد رہ گئی ہے دلِ بے قرار میں

وہ تو ذرا سی دیر کو میّت پہ بھی نہ آئے

ہم جن کے آسرے پہ چلے تھے مزار میں

پردے میں چُھپ کے بیٹھنے والے اِدھر تو دیکھ

کیا کُچھ نہیں مِری نِگۂ اعتبار میں

اے کاش یاد آئیں تجھے بھی مِری طرح

وہ دن گُزر گئے جو محبت میں پیار میں

ایک ایک لمحہ یاد ہے ایک ایک وہ گھڑی

ہم کو تلاشِ یار تھی جب کُوئے یار میں

اے مستِ حُسنِ ناز کچھ اس کی بھی خبر ہے

جذبہ تھا کیا مِری نِگۂ بار بار میں

کیا جبر ہے کہ ہم پہ ہوں کیوں فریفتہ

کہہ تو دیا کہ دِل نہ رہا اختيار میں

کیا فائدہ نکال بھی دل سے کدُورتیں

دو دن کی زندگی ہے گُزر جائے پیار میں

افسوس تُو نے دل کی ذرا بھی نہ قدر کی

یہ داغ لے چلا ہوں دلِ داغدار میں

مُشتاق جن کی آنکھوں سے پردے اُٹھے اُنہیں

سو سو طرح کی دِید ہے اِک دِیدِ یار میں


سید غلام معین الدین مشتاق

No comments:

Post a Comment