شدتیں گاڑنی ہیں سینےمیں، سانس لیکن بحال رکھنا ہے
عشق کرنا ہے کچھ نہیں کہنا، آنکھ کو بے سوال رکھنا ہے
اس کو ملنا نہیں کبھی جا کر، راستے سب گنوانے ہیں خود ہی
حسرتوں کو دلاسے دینے ہیں، خواہشوں کا وبال رکھنا ہے
دیپ رکھنے ہیں شام پلکوں پر، جاگ کر اب گزارنی ہے شب
اس کو آواز بھی نہیں دینی، اور خود کو نڈھال رکھنا ہے
حرف احساس پر نہیں آئے، جان جاتی ہے تو چلی جائے
نوکِ وحشت سے لفظ لکھو تو زخم کا اندمال رکھنا ہے
چل سجل راہ بات کی ڈھونڈیں، اس کے لہجےکی خوشبو چن لاٸیں
جس کی چپ نے بھی شور کرنا ہے، دل میں طوفاں اچھال رکھنا ہے
سجل احمد
No comments:
Post a Comment