امیرِ شہر نے تانی ہیں اپنی شمشیریں
کہ اہلِ فن کے لیے بن رہی ہیں زنجیریں
ہمارے پاس نہ سرمایہ، اور نہ جاگیریں
ہمارے پاس ہیں خوابوں کی صرف تعبیریں
ہوا کے رُخ پہ جو دوڑیں وہ راج کرتے ہیں
کبھی بدلتی نہیں اہلِ حق کی تقدیریں
ہمارے بچے ہی سچائی کی علامت ہیں
کہاں ملیں گی یہ معصومیت کی تصویریں
جو اہلِ فن ہیں انہیں دوستو! سلام کرو
ہیں ان کے پاس ہنرمندوں کی جاگیریں
یزیدِ وقت کی بیعت بھی کیوں کریں زیبی
ہمیں قبول ہیں ظلم و ستم کی زنجیریں
وہ خواب ددیکھیے زیبی کہ جن کا حاصل ہوں
سدا بہار خلوصِ وفا کی تعبیریں
زیب النساء زیبی
No comments:
Post a Comment