Sunday 31 October 2021

جبیں پہ شہر کی لکھ کر فضا اداسی کی

 جبیں پہ شہر کی لکھ کر فضا اداسی کی

بہت ہے خوش کوئی دے کر دعا اداسی کی

حیات پا نہ سکے گی حسین سی خواہش

سماعتوں میں ہے جب تک صدا اداسی کی

فلک کے چاند ستاروں میں روشنی کم ہے

مجھے تو لگتی ہے اس میں خطا اداسی کی

چہکتی شام میں معصوم قہقہوں کے بیچ

سجی ہے کیوں تِرے سر پر ردا اداسی کی

چراغ شوق سے آخر وہ ہو گیا روشن

لیے تھی قید میں جس کو گھٹا اداسی کی

نہ ہو سکا مجھے معلوم کر گئی کیسے

مِرے وجود کو لرزاں ہوا اداسی کی

غموں کی رُت سے کبھی دلفگار مت ہونا

خوشی لُٹا گئی اکثر ادا اداسی کی

مسرتوں سے کہیں دلربا ستم نکلا

لپیٹے شال بہت خوشنما اداسی کی

عجیب حال ہے جعفر بدلتے موسم کا

کسی کو کر گئی شاداں سزا اداسی کی


جعفر ساہنی

No comments:

Post a Comment