یوں ساتوں سُر سماعت میں سما کے رقص کرتے ہیں
تو پیاس اپنی محبت کی بجھا کے رقص کرتے ہیں
جو لڑکا ہو چکا ہے اب محبت سے بھی انکاری
تو ہم بھی اس کے خط سارے جلا کے رقص کرتے ہیں
جو حالِ دل نہیں جانا تو پایا کیا مزا تم نے
جو تیرے عشق میں خود کو مٹا کے رقص کرتے ہیں
نہ پوچھو ہم سے عیدوں کا کہ بس ہم تو سبھی عیدیں
سہارے تیری یادوں کے منا کے رقص کرتے ہیں
نشے میں ہم جو رہتے ہیں سبب اس کا یہی ہے بس
نشیلے تیرے نینوں کو ملا کے رقص کرتے ہیں
نہیں کہتے ہمیں کچھ بھی سجے ہیں پاؤں میں جو زخم
زمانے بھر کے دُکھ سینے لگا کے رقص کرتے ہیں
چُرانی ہے نظر سب سے کہ ہم تو فاتحہ نظریں
یہ عادت ہے نظر اپنی چُرا کے رقص کرتے ہیں
فاتحہ چوہدری
No comments:
Post a Comment