زخموں کو کریدا ہے تو ماضی نکل آیا
سُوکھے ہوئے دریاؤں سے پانی نکل آیا
اس شخص کو پڑھنے میں بڑی چُوک ہوئی تھی
وہ دوست تھا جو دشمنِ جانی نکل آیا
تشنہ تھے بہت دھوپ میں بھیگے ہوئے منظر
کل رات تو سورج سے ہی پانی نکل آیا
جو شخص نہیں جانتا اسلام کے معنی
حیرت ہے کہ اسلام کا داعی نکل آیا
گو اس نے غزل اپنے بڑھاپے میں کہی ہے
غزلوں میں مگر رنگِ جوانی نکل آیا
ندیم ماہر
No comments:
Post a Comment