Saturday, 30 October 2021

چاندنی چھٹکی ہوئی ہو تو غزل ہوتی ہے

 چاندنی چھٹکی ہوئی ہو تو غزل ہوتی ہے

جل پری پاس کھڑی ہو تو غزل ہوتی ہے

دل نشیں کوئی نظارہ کوئی دلکش منظر

بات دلچسپ کوئی ہو تو غزل ہوتی ہے

یا کسی درد میں ڈوبی ہوئی آوازِ نحیف

یا کوئی چیخ سنی ہو تو غزل ہوتی ہے

شاعری نام ہے احساس کے لو پانے کا

آگ سی دل میں دبی ہو تو غزل ہوتی ہے

کوئی کھلتا ہوا چہرہ کوئی غنچہ کوئی پھول

آنکھ سیراب ہوئی ہو تو غزل ہوتی ہے

درمیاں آپ کے میرے کوئی حائل ہو جائے

کوئی دیوار کھڑی ہو تو غزل ہوتی ہے

کوئی جدت کوئی ندرت کوئی پاکیزہ خیال

ہاں کوئی بات نئی ہو تو غزل ہوتی ہے

پہلے شاعر کو ملے ذہنِ رسا قلبِ گداز

پھر وہ لفظوں کا دھنی ہو تو غزل ہوتی ہے

عام حالات میں ہوتی نہیں اے تاج غزل

کچھ نہ کچھ درد سری ہو تو غزل ہوتی ہے


ریاست علی تاج

No comments:

Post a Comment