Wednesday, 27 October 2021

دہکتی ہوئی یاد میرے بدن سے ٹکراتی ہے

 دہکتی ہوئی یاد


دہکتی ہوئی یاد

میرے بدن سے ٹکراتی ہے

اس کا لمس

مجھے پاگل سا بنا دیتا ہے

میں چیخ پڑتا ہوں

گوشت جلنے کی بُو

فضا میں پھیلنے لگتی ہے

میرے آنسوؤں میں

ایک چھناکے کے ساتھ

دہکتی ہوئی یاد

سرد ہونے لگتی ہے

میں

آس پاس کے منظر نامے کو دیکھتا ہوں

جو بدلا ہوا ہوتا ہے

میں سرد پڑنے والی یاد کو

بھٹی میں رکھتا ہوں

اور دوبارہ

دھونکنی چلانے لگتا ہوں


مصطفیٰ ارباب

No comments:

Post a Comment