دہکتی ہوئی یاد
دہکتی ہوئی یاد
میرے بدن سے ٹکراتی ہے
اس کا لمس
مجھے پاگل سا بنا دیتا ہے
میں چیخ پڑتا ہوں
گوشت جلنے کی بُو
فضا میں پھیلنے لگتی ہے
میرے آنسوؤں میں
ایک چھناکے کے ساتھ
دہکتی ہوئی یاد
سرد ہونے لگتی ہے
میں
آس پاس کے منظر نامے کو دیکھتا ہوں
جو بدلا ہوا ہوتا ہے
میں سرد پڑنے والی یاد کو
بھٹی میں رکھتا ہوں
اور دوبارہ
دھونکنی چلانے لگتا ہوں
مصطفیٰ ارباب
No comments:
Post a Comment