Friday, 29 October 2021

نئے سرے سے پھر آج کیفی ہم اپنی دنیا بسا رہے ہیں

نئے سرے سے پھر آج کیفی ہم اپنی دنیا بسا رہے ہیں

جو کھو چکے اس سے بے خبر ہیں جو رہ گیا وہ لٹا رہے ہیں

نشاط امروز کی قسم ہے کہ دل نے سب محفلیں بھلا دیں

دئیے تھے ماضی نے داغ جتنے وہ خود بہ خود مٹتے جا رہے ہیں

خوشا یہ دور شباب ان کا یہ دل نواز التفات ان کا

کہ بے پیے آج ہر قدم پر مِرے قدم لڑکھڑا رہے ہیں

ادھر نظر ہے ادھر نظر ہے کچھ اپنی رسوائیوں کا ڈر ہے

جھجک رہے ہیں ٹھٹھک رہے ہیں مگر مِری سمت آ رہے ہیں

حیا نے گو جرأت تکلم زبان سے چھین لی ہے لیکن

وہ آنکھوں آنکھوں ہی میں بہت کچھ سنا چکے اور سنا رہے ہیں

شباب ہے اور شادمانی بہار ہے اور کامرانی

بنے ہیں سرشاریٔ مجسم مجھے بھی وہ خود بنا رہے ہیں


کیفی مہکاری

عبدالرشید خان

No comments:

Post a Comment